ایک پلاسٹک کے پائپ کو دبائیں گے تو وہ آسانی سے دب جائے گا، لیکن جب اس پائپ میں سے پانی بہہ رہا ہوگا تب اس کو دبائیں گے تو وہ اتنی آسانی سے نہیں دبے گا، کیونکہ پائپ میں بہہ رہا پانی، پائپ کی دیواروں پر اندر کی طرف سے پریشر لگاتا ہے جو دیواروں کو آسانی سے دبنے نہیں دیتے۔
اسی طرح ہم اپنی خون کی نالیوں کی بات کرتے ہیں، اس بات چیت میں خون کی نالیوں سے مراد وہ بڑی نالیاں ہیں جن میں دل خون پمپ کرتا ہے اور ان نالیوں کی شاخوں سے خون پورے جسم میں پھیل جاتا ہے (یعنی ہمارا aorta اور اس سے نکلنے والی بڑی arteries)
تو ان نالیوں میں خون بہہ رہا ہے تو پائپ اور پانی کی طرح خون بھی ان نالیوں کی دیواروں پر پریشر لگائے گا، اور اس پریشر کو ہم "بلڈ پریشر" کہتے ہیں۔
اب اپنا بلڈ پریشر بنیادی طور پر دو چیزوں پر منحصر ہوتا ہے
1- cardiac output 2-Total peripheral resistance
انتہائی سادہ زبان میں بات کریں تو cardiac output کا مطلب ہوتا ہے کہ دل ایک مقررہ وقت میں کتنا خون پمپ کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اگر دل زیادہ خون پمپ کرے گا تو نالیوں میں بھی زیادہ خون جائے گا اور اگر خون زیادہ ہوگا تو اس کی طرف سے لگایا جانے والا پریشر بھی زیادہ ہوگا۔ یعنی کہ بلڈ پریشر زیادہ ہوگا۔
اس cardiac output کا حساب لگانے کے لیے اپ اسے stroke volume اور heart rate کا پراڈکٹ سمجھ سکتے ہیں یعنی
Cardiac output= heart rate × stroke volumeیہاں stroke volume کا مطلب ہے کہ دل نے ایک بار میں یعنی ایک دھڑکن میں کتنا خون پمپ کیا۔ جبکہ heart rate کا مطلب ہے کہ ایک منٹ میں دل کتنی بار دھڑکا۔
تو اس cardiac output = heart rate × stroke volume
والی اس مساوات سے اپکو لگ رہا ہوگا کہ اگر heart rate بڑھے گا تو cardiac output بھی بڑھے گی، اور کافی حد تک ایسا ہی ہوتا ہے
لیکن اگر heart rate بہت زیادہ بڑھ جائے گا تو cardiac output کم ہو جائے گی، کیونکہ تب دل اتنی رفتار سے دھڑکے گا کہ اس میں اتنا خون جمع ہی نہیں ہوسکے گا جتنا اسے اگے پمپ کرنا ہے، (preload) اس لیے اگے پمپ کرنے کے لیے کم خون ہوگا، اور اس طرح cardiac output بڑھنے کی بجائے کم بھی ہوسکتی ہے۔
دوسری چیز جس پر بلڈ پریشر منحصر ہے وہ ہے total peripheral resistance۔ یعنی دل سے نالیوں میں آنے والے خون کو کنتی رکاوٹ کا سامنا ہے۔
جب ہم پانی والے پائپ کے منہ کو دبا دیتے ہیں تو پانی کا پریشر بڑھ جاتا ہے، اسی طرح اگر خون کی نالی تنگ ہو جائے گہ تو اس میں بلڈ پریشر بھی بڑھے گا۔
اب خون کی نالیوں میں رکاوٹ کیسے کم زیادہ ہوسکتی ہے ؟ اس میں سب سے اہم کردار ہماری نالیوں میں موجود پٹھوں کا ہے، ان پٹھوں کو دماغ کی طرف سے سگنل آتا ہے جس سے کہ یہ پٹھے سکڑتے اور پھیلتے ہیں، ان کے سکڑنے سے نالیوں کا حجم کم ہو جاتا ہے، اور انکے پھیلنے سے حجم بڑھ جاتا ہے۔
ہمارے دماغ کے علاؤہ، مختلف ہارمونز کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے والی بہت سی ادویات بھی ان پٹھوں کے سکڑنے اور پھیلنے پر اثر کرتی ہیں۔
اسکے علاؤہ بھی کسی خون کی نالی کے resistance کو ناپنے کے لیے ہم ایک فارمولا استعمال کر سکتے ہیں
R= 8nl / πr⁴(یہ فارمولا کسی Hagen–Poiseuille Law سے بنایا گیا ہے، جس کی فزکس سے میرا کچھ لینا دینا نہیں)
یہاں پر ہمارا "n" اصل میں خون کی viscosity ہے۔ یعنی خون کتنا گاڑھا ہے۔ جیسے کسی کے جسم میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہوگئی، تو اس سے بھی اس کا خون گاڑھا ہوسکتا ہے (کیونکہ خون کا بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہے)۔ یا پھر خون میں کسی کینسر وغیرہ کی وجہ سے خلیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس سے خون گاڑھا ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔
دوسری چیز ہے "l" یعنی length، یعنی کہ ہم جس نالی کی بات کر رہے ہیں اس کی لمبائی کتنی ہے۔
تیسری اور سب سے اہم چیز ہے "r" یعنی کہ اس نالی کا قطر، یعنی کہ وہ نالی کتنی کھلی یا کتنی تنگ ہے۔ اور یہ بات تو ہم اوپر کر ہی چکے ہیں کہ نالیوں میں موجود پٹھے کیسے انہیں کھلا یا تنگ کرتے ہیں۔ اس کے علاؤہ اگر نالی میں کسی کولیسٹرول وغیرہ کے plaque کی رکاوٹ ہے تو وہ بھی اس کے چوڑائی کو اثر کرے گی۔
تو ہم نے سادہ سادہ طریقے سے ان دونوں چیزوں کو سمجھ لیا جن پر بلڈ پریشر منحصر ہے۔
اور ان دونوں چیزوں پر بھی بہت ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں اثر کرتی ہیں۔ جیسا کہ after load, ائنز، دل کے مسلز کی contractility وغیرہ وغیرہ
لیکن اگر آپ تحریر پڑھتے پڑھتے یہاں تک آگئے ہیں تو میں اپکو مزید بور نہیں کروں گا، ویسے بھی میں تو آج کل فارغ ہوں، لیکن اپ کا وقت اور دماغ تو قیمتی ہے۔۔۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق